اختلافی معاملات میں فضول بحثوں سے اجتناب
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں جو تعلیم دی گئی ہے وہ درحقیقت علماء امت کے لیے اہم رہنما اصول ہیں، وہ یہ کہ جب کسی مسئلہ میں اختلاف پیش آئے تو جس قدر ضروری بات ہے اس کو واضح کر کے بیان کر دیا جائے۔۔۔۔ اس کے بعد بھی لوگ غیر ضروری بحث میں الجھیں تو ان کے ساتھ سرسری گفتگو کر کے بحث ختم کر دی جائے، اپنے دعوے کے اثبات میں کاوش اور ان کی بات کی تردید میں بہت زور لگانے سے گریز کیا جائے کیوں کہ اس کا کوئی خاص فائدہ تو ہے نہیں، مزید بحث و تکرار میں وقت کی اضاعت بھی ہے اور باہم تلخی پیدا ہونے کا خطرہ بھی۔۔۔۔
دوسری ہدایت یہ دی گئی ہے کہ وحی الٰہی کے ذریعہ سے قصہ اصحاب کہف کی جتنی کافی معلومات آپ کو دی گئی ہیں ان پر قناعت فرما دیں زائد کی تحقیقات اور لوگوں سے سوال وغیرہ میں نہ پڑیں۔۔۔۔ دوسروں سے سوالات کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی جہالت یا ناواقفیت ظاہر کرنے اور ان کو رسوا کرنے کے لیے سوال کیا جائے۔۔۔۔ یہ بھی اخلاق انبیاء کے خلاف ہے، اس لیے دوسرے لوگوں سے دونوں طرح کے سوال کرنا ممنوع کر دیا گیا، یعنی تحقیق مزید کے لیے ہو یا مخاطب کی تجہیل و رسوائی کے لیے ہو۔۔۔۔ (معارف القرآن: ۵/۵۷۹)
مفتی اعظم حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ’’فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے پہلے جملہ میں یہ فرمایا تھا کہ مختلف قوموں کے مختلف قبلے ہیں، کوئی ایک دوسرے کے قبلہ کو تسلیم نہیں کرتا، اس لیے اپنے قبلہ کے حق ہونے پر ان لوگوں سے بحث فضول ہے، اس جملے کا حاصل یہ ہے کہ جب یہ معلوم ہے کہ اس بحث سے ان لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، تو پھر اس فضول بحث کو چھوڑ کر اپنے اصلی کام میں لگ جانا چاہیے اور وہ کام ہے… نیک کاموں میں دوڑ دھوپ اور آگے بڑھنے کی کوشش اور چونکہ فضول بحثوں میں وقت ضائع کرنا اور ’’مسابقت الی الخیرات‘‘ میں سستی کرنا، عموماً آخرت سے غفلت کے سبب ہوتے ہیں، جس کو اپنی آخرت اور انجام کی فکر درپیش ہو وہ کبھی فضول بحثوں میں نہیں الجھتا، اپنی منزل طے کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔۔۔۔ (معارف القرآن: ۱/۳۸۹، البقرۃ: ۱۴۸)
