اختلافِ رائے کی حدود
اختلافِ رائے کچھ مذموم نہیں۔۔۔۔ اگر اپنی حدود کے اندر ہو۔۔۔۔ انسان کی فطرت میں اس کے پیدا کرنے والے نے عین حکمت کے مطابق ایک مادہ غصہ اور مدافعت کا بھی رکھا ہے اور وہ انسان کی بقا و ارتقا کے لیے ضروری ہے۔۔۔۔ مگر یہ مادہ دشمن سے مدافعت کے لیے رکھا ہے۔۔۔۔ اگر اس کا رخ دوسری طرف ہو جائے، خواہ اس لیے کہ دشمن کو پہچاننے اور متعین کرنے میں غلطی ہو گئی ہو یا کسی دوسری وجہ سے۔۔۔۔ بہرحال جب دشمن کا رخ بدلے گا تو یہ خود اپنی تباہی کا ذریعہ بنے گا۔۔۔۔ اسی لیے قرآنِ کریم نے مؤمن کے لیے پوری وضاحت کے ساتھ اس کا رخ متعین فرما دیا ہے:
اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا (الفاطر:۶)
شیطان تمہارا دشمن ہے، اس کو ہمیشہ دشمن سمجھتے رہو، جس کا حاصل یہ ہے کہ مؤمن کے غصے اور لڑائی کا مصرفِ صحیح صرف شیطان اور شیطانی طاقتیں ہیں۔۔۔۔ جب اس کی جنگ کا رخ اس طرف ہوتا ہے تو وہ جنگ قرآن کی اصطلاح میں جہاد کہلاتی ہے جو اعظم عبادات میں سے ہے۔۔۔۔
حدیث میں فرمایا: ’’ذِرْوَۃُ سَنَامِہٖ اَلْجِھَادُ۔۔۔۔‘‘ (جامع الترمذی)
یعنی اسلام میں سب سے اعلیٰ کام جہاد ہے، لیکن اگر اس جنگ کا رخ ذرا اس طرف سے ہٹا تو یہ جہاد کے بجائے فساد کہلاتی ہے، جس سے بچانے ہی کے لیے اللہ کے سارے رسول اور کتابیں آئی ہیں۔۔۔۔ شکل و صورت کے اعتبار سے جہاد اور فساد میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔۔۔۔ وہ کانٹا جہاں سے یہ لائنیں بدلتی ہیں، صرف یہ ہے کہ اس کا رخ شیطان اور شیطانی طاقتوں کی طرف ہے تو جہاد ہے ورنہ فساد۔۔۔۔
دو قومی نظریہ، جس نے پاکستان بنوایا اسی اجمال کی عملی تفصیل تھی کہ کلمہ اسلام ماننے والے ایک متحد قوم ہیں اور نہ ماننے والے دوسری قوم ۔۔۔۔ ان کے جہاد کا رخ اس طرف ہونا چاہیے۔۔۔۔ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ نے جہاد کے فرض ہونے کی ایک حکمت یہ بھی بیان فرمائی کہ قہر و غضب اور مدافعت کا مادہ جو انسانی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے، جب جہاد کے ذریعے اپنا صحیح مصرف پا لیتا ہے تو آپس کی خانہ جنگی اور فساد سے خود بخود نجات ہو جاتی ہے۔۔۔۔ ورنہ اس کی مثال ایسی ہوتی ہے کہ جس چھت میں بارش کا پانی نکلنے کا راستہ پر نالوں کے ذریعے نہ بنایا جائے تو پھر یہ پانی چھت کو توڑ کر اندر آتا ہے۔۔۔۔
