اختلافِ رائے اور جھگڑے فساد میں فرق
اہل عقل و بصیرت پر مخفی نہیں کہ دینی اور دنیوی دونوں قسم کے معاملات میں بہت سے مسائل ایسے آتے ہیں، جن میں رائیں مختلف ہو سکتی ہیں۔۔۔۔ ان میں اختلاف کرنا عقل و دیانت کا عین مقتضی ہوتا ہے۔۔۔۔ ان میں اتفاق صرف دو صورتوں سے ہو سکتا ہے یا تو مجمع میں کوئی اہلِ بصیرت اور اہل رائے نہ ہو۔۔۔۔ ایک نے کچھ کہہ دیا سب نے مان لیا اور یا پھر جان بوجھ کر کسی کی رعایت و مروّت سے اپنے ضمیر اور اپنی رائے کے خلاف دوسرے کی بات پر فیصلہ صادر کر دیا۔۔۔۔ ورنہ اگر عقل و دیانت دونوں موجود ہوں تو رائے کا اختلاف ضروری ہے اور یہ اختلاف کبھی کسی حال پر مضر بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔ بلکہ دوسروں کے لیے بصیرت کا سامان مہیا کرتا ہے۔۔۔۔ اسمبلیوں میں حزبِ اختلاف کو اسی بنیاد پر ضروری سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔
قرآن و سنت کے مجملات اور مبہمات کی تشریح و تعبیر میں اسی طرح کے اختلافات کو رحمت کہا گیا ہے۔۔۔۔ جو اسلام کے عہدِ اول سے صحابہ و تابعین اور پھر ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ تعالیٰ میں چلے آئے ہیں۔۔۔۔ ان مسائل میں جو اختلافات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں پیش آ چکے ہیں، ان کو مٹانے کے معنی اس کے سوا نہیں ہو سکتے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی کسی ایک جماعت کو باطل پر قرار دیا جائے، جو نصوص حدیث اور ارشادات قرآنی کے بالکل خلاف ہے۔۔۔۔ اسی لیے حافظ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس مسئلے میں اختلاف صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے درمیان ہو چکا ہے اس کو بالکل ختم کر دینا ممکن نہیں۔۔۔۔
