اختلافاتِ اُمت کا سبب اورحل حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی نظر میں

اختلافاتِ اُمت کا سبب اورحل حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی نظر میں

شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب قدس اللہ سرہ مالٹا کی جیل میں چار سالہ قید سے رہائی کے بعد دارالعلوم دیوبند میں تشریف لائے تو علماء کے ایک مجمع کے سامنے ایک اہم بات ارشاد فرمائی۔۔۔۔
جو لوگ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ سے واقف ہیں، وہ اس سے بھی بے خبر نہیں ہیں کہ ان کی یہ قیدو بند عام سیاسی لیڈروں کی قید نہ تھی۔۔۔۔ جنگ آزادی میں اس درویش کی ساری تحریکات صرف رضائے حق سبحانہ وتعالیٰ کے لیے، امت کی صلاح و فلاح کے گرد گھومتی تھیں۔۔۔۔ مسافرت اور انتہائی بے کسی کے عالم میں گرفتاری کے وقت جو جملہ ان کی زبان مبارک پر آیا تھا، ان کے عزم اور مقصد کا پتہ دیتا ہے۔۔۔۔ فرمایا:۔
الحمدﷲ!بمصیبتے گرفتار، نہ بمعصیتے
جیل کی تنہائی میں ایک روز مغموم دیکھ کر بعض رفقاء نے کچھ تسلی کے الفاظ کہنا چاہے تو فرمایا:’’اس تکلیف کا کیا غم ہے، جو ایک دن ختم ہو جانے والی ہے؟ غم اس کا ہے کہ یہ تکلیف و محنت اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبول بھی ہے یا نہیں۔۔۔۔‘‘۔
مالٹا کی قید سے واپس آنے کے بعد ایک رات بعد عشاء دارالعلوم میں تشریف فرما تھے۔۔۔۔ علماء کا بڑا مجمع سامنے تھا۔۔۔۔ اس وقت فرمایا کہ ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں۔۔۔۔
یہ الفاظ سن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہو گیا کہ اس استاذ العلماء درویش نے اَسی سال علماء کو درس دینے کے بعد آخر عمر میں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں؟
فرمایا کہ میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے:ایک ان کا قرآن کریم کو چھوڑ دینا۔۔۔۔دوسرا آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔۔۔۔اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے۔۔۔۔ بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب بستی بستی میں قائم کیے جائیں۔۔۔۔ بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔۔۔۔
نباضِ امت نے ملتِ مرحومہ کے مرض کی جو تشخیص اور تجویز فرمائی تھی، باقی ایامِ زندگی میں ضعف و علالت اور ہجومِ مشاغل کے باوجود اس کے لیے سعی پیہم فرمائی۔۔۔۔ بذات خود درسِ قرآن شروع کرایا۔۔۔۔ جس میں تمام علمائے شہر اور حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہما اللہ تعالیٰ جیسے علماء بھی شریک ہوتے تھے اور عوام بھی۔۔۔۔ اس ناکارہ (یعنی حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ) کو اس درس میں شرکت کا شرف حاصل رہا ہے۔۔۔۔ مگر اس واقعہ کے بعد حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی عمر ہی گنتی کے چند ایام تھے۔۔۔۔

Most Viewed Posts

Latest Posts

اختلاف کی دو قسمیں

اختلاف کی دو قسمیں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔علماء کرام میں اگر اختلاف ہو جائے تو اختلاف کی حد تک وہ مضر نہیں جب کہ اختلاف حجت پر مبنی ہو ظاہر ہے کہ ایسی حجتی اختلافات میں جو فرو عیاتی ہوں ایک قدرمشترک ضرور ہوتا ہے جس پر فریقین...

read more

اختلاف کا اُصولی حل

اختلاف کا اُصولی حل محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالرئوف صاحب اپنے رسالہ ’’اِسلامی بینکاری‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:مخلص و محقق اور معتبر اکابر علمائے کرام کے درمیان کسی مسئلہ کی تحقیق کے سلسلے میں جب اختلاف ہوجائے تو بزرگ اکابر حضرات رحمہم اﷲ تعالیٰ کے ارشادات میں مکمل...

read more

ایک ڈاکو پیر بن گیا

ایک ڈاکو پیر بن گیا قطب الارشادحضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ اپنے مریدین سے فرمانے لگے تم کہاں میرے پیچھے لگ گئے۔۔۔۔ میرا حال تو اس پیر جیسا ہے جو حقیقت میں ایک ڈاکو تھا۔۔۔۔ اس ڈاکو نے جب یہ دیکھا کہ لوگ بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ پیروں کے پاس...

read more