احکام میں اکابر کی موافقت مطلوب ہے انتظام میں نہیں
فرمایا مہمانوں کے متعلق ہمارے اکابر کا یہی معمول تھا کہ عموماً ان کے کھانے کا جوانتظام فرماتے تھے دام وغیرہ دینا ان کا معمول نہ تھا۔ ہاں شاذو نادر کبھی ایسا بھی ہوا ہے اور میری عادت انتظام کی مصالح سے معمول اکابر کے خلاف ہے گو کھینچ تان کر اپنی اس عادت کومعمول اکابر کے موافق کرنا ممکن ہے کہ وہ بھی تو کبھی دام دے دیا کرتے تھے مگر یہ موافقت کا دعویٰ صحیح نہیں کیونکہ موافقت تو یہ ہوتی ہے کہ میں بھی اکثر تو کھانے کا ا نتظام کیا کرتا اور گاہے گاہے بر سبیل شذو ذ داموں کا انتظام بھی کردیا کرتا۔اور یہاں معاملہ اسکے برعکس ہے۔ معمولی عادت غالبہ کا نام ہے۔ باقی یہ ایک واقعی تحقیق ہے کہ ایسے امور میں خود موافقت ہی کی ضرورت نہیں کیونکہ اکابر کی موافقت احکام میں مطلوب ہے نہ کہ انتظام میں اورمیں نے یہ طریقہ انتظاماً اختیار کیا ہے کہ طرفین کومختلف تشویشات سے نجات ہوتی ہے۔
اور اس میںدینی و دنیوی مصالح حاصل ہوتے ہیں یہ اعتراض ایسا ہی ہے جیسے ان معترضین پر کوئی اعتراض کرے کہ تمہارے بزرگوں نے تو حج بادبان والی کشتیوں میں کیا ہے۔ اور تم دخانی جہازوں میں حج کرتے ہو۔ یہ ان کے طریق اورمعمول کے خلاف ہے توکیا تم اپنے کو ان کا مخالف کہلا لو گے۔ اسی طرح آئندہ ہماری ذریت ہوائی جہاز پرحج کرنے لگے توکیا ان کو یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ اپنے اکابر کے خلاف کرتے ہیں وہ ہوائی جہاز پر حج نہیں کیاکرتے تھے۔ دیکھئے اگر ایک بزرگ کا نظام الاوقات صبح سے شام کچھ اور ہو اور دوسرے آدمی کا کچھ اور تو کیا اسکو مخالفت سے تعبیر کرنادرست ہو گا۔ غرض یہ کلیہ ہر جگہ ملحوظ رکھناچاہئے کہ بزرگوں کا اتباع احکام میں ہوتا ہے۔ امور انتظامات میں ضروری نہیں بلکہ حالات وواقعات کے اختلاف سے جو مناسب ہو گا کیا جائے گا۔ ہاں حدود شریعت سے کسی حال میں تجاوز نہ ہونا چاہئے۔باقی اس قسم کے اعتراضات کی بالکل پرواہ نہ کرنا چاہئے کہ یہ بات فلاں بزرگ کے معمول کے خلاف ہے اور وہ بات اس بزرگ کی عادت کے خلاف ہے۔(ملفوظات حکیم الامت جلد نمبر ۲۵)
