احکام شرعیہ میں کثرت رائے معیار نہیں

احکام شرعیہ میں کثرت رائے معیار نہیں

حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ اشکال کیا جاتا ہے کہ اگر ہم صحیح طریق سے بھی نصوص میں سے احکام تلاش کریں تو سب احکام نصوص میں صراحتاً تو موجود ہیں نہیں اس لیے ممکن ہے کہ باوجود صحیح تلاش کے بوجہ صراحتاً نہ ملنے کے احکام میں اختلاف آراء ہو تو اس صورت میں صحیح حکم کیونکر معلوم ہوگا ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جب کبھی ایسی بات میں اختلاف پیش آئے جس میں نص موجود نہ ہو تو اس وقت اس شق پر عمل کرنا چاہیے جو اصول شرعیہ سے راجح ہو لیکن ترجیح کے لیے کثرت رائے معیار نہیں ہے جیسا کہ آج کل لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے کہ ہر اختلاف کا فیصلہ کثرت رائے سے کرلیتے ہیں حیرت ہے کہ کسی اور کام میں ایسا نہیں کیا جاتا مثلاً کسی الجھے ہوئے مریض کے بارے میں اطبا کا مجمع ہوتو وہاں لوگوں کی رائے سے فیصلہ نہیں ہوگا وہاں سب یہی کہیں گے کہ حضرت ہم اس کام کو نہیں جانتے جو طبیب کہے وہ صحیح ہے اے اللہ! سب سے سستا اور نکما دین ہی کام ہوگیا ہے کہ اس میں ہر شخص رائے دینے کا مستحق ہے۔

Most Viewed Posts

Latest Posts

تقلید کا دور کبھی ختم نہیں ہو سکتا

تقلید کا دور کبھی ختم نہیں ہو سکتا حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔۔’’اجتہاد فی الدین کا دور ختم ہو چکا توہو جائے مگر اس کی تقلید کا دور کبھی ختم نہیں ہو سکتا‘ تقلید ہر اجتہاد کی دوامی رہے گی خواہ وہ موجودہ ہو یا منقضی شدہ کیونکہ...

read more

طریق عمل

طریق عمل حقیقت یہ ہے کہ لوگ کام نہ کرنے کے لیے اس لچر اور لوچ عذر کو حیلہ بناتے ہیں ورنہ ہمیشہ اطباء میں اختلاف ہوتا ہے وکلاء کی رائے میں اختلاف ہوتا ہے مگر کوئی شخص علاج کرانا نہیں چھوڑتا مقدمہ لڑانے سے نہیں رکتا پھر کیا مصیبت ہے کہ دینی امور میں اختلاف علماء کو حیلہ...

read more

اہل علم کی بے ادبی کا وبال

اہل علم کی بے ادبی کا وبال مذکورہ بالا سطور سے جب یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ اہل علم کا آپس میں اختلاف امر ناگزیر ہے پھر اہل علم کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کرنا کتنی سخت محرومی کی بات ہے حالانکہ اتباع کا منصب یہ تھا کہ علمائے حق میں سے جس سے عقیدت ہو اور اس کا عالم...

read more