آپ دین کس سے حاصل کرتے ہیں؟ (175)۔
آج کے دور میں دین کا علم حاصل کرنا ایک اہم ترین اور حساس معاملہ بن چکا ہے۔ افسوس کہ لوگ اکثر بغیر تحقیق کے ہر اس شخص کی باتوں کو دین سمجھ لیتے ہیں جو دو تین حدیثیں سنا دیتا ہے یا پھر جس نے محض ڈاڑھی بڑھا لی ہو۔ یہ رویہ نہایت خطرناک ہے کیونکہ دین اسلام کی بنیاد تحقیق اور صحیح ذرائع سے سیکھنے پر ہے، نہ کہ ظاہری حلیے یا محض الفاظ پر۔
ہمارے معاشرے میں ایک اور عام بات یہ بھی ہے کہ جو کوئی بھی دنیاوی اعتبار سے مشہور ہوجاتا ہے چاہے وہ ڈاکٹر ہو، انجینئر ہو، یا سیاستدان۔ اگر وہ دین کے بارے میں بات شروع کردے تو لوگ فوراً اسے دین کا پیشوا مان لیتے ہیں۔ نتیجتاً، حقیقی علماء اور دین دار لوگوں کی باتیں پس پشت چلی جاتی ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ جس شخص سے ہم دین کا علم حاصل کر رہے ہیں، وہ واقعی معتبر اور قابل اعتماد ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں چار بنیادی باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:
پہلی بات:جس شخص سے آپ دین کا علم حاصل کر رہے ہیں، وہ اپنے استاد کا واضح اعلان کرے۔ دین ہمیشہ ایک معتبر سلسلہ کے ذریعے منتقل ہوا ہے، اور یہ ضروری ہے کہ وہ شخص جس سے آپ علم لے رہے ہیں، وہ خود بھی کسی مستند مدرسے یا عالم کا شاگرد رہا ہو۔ اس کے اساتذہ اور مدرسہ اس کو قبول کرتے ہوں اور اس کے علم کی تصدیق کرتے ہوں۔
دوسری بات:وہ شخصمتبع سنت ہو۔ دین کا علم پہنچانے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری اور باطنی طریقے پر عمل پیرا ہو۔ اگر کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ہٹ کر زندگی گزار رہا ہے، تو اس کی باتوں میں وزن نہیں ہوگااور اسکے پیغام میں اثر نہیں ہوگا۔
تیسری بات:آپ کو اس شخص کے معاملات کی چھان بین کرنی چاہیے۔ اس کے اردگرد کے لوگوں سے تعلقات اور معاملات کیسے ہیں؟ اگر اس کے معاملات مشکوک ہوں ۔ تو ایسے شخص سے دین لینا خطرناک ہوسکتاہے۔ اگرچہ معاملات کی تحقیق تھوڑا سا محنت طلب کام ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے۔
چوتھی اور آخری بات:وہ شخص صحابہ کرام، سلف صالحیناور موجودہ اکابر علمائے کرام کا احترام کرتا ہو۔ یہ سب سے زیادہ ضروری ہے۔ کیونکہ دین ہم تک انہی بزرگوں کے ذریعے سے پہنچا ہے۔ اور اگر کوئی شخص ان کا احترام نہ کرے یا ان کے علم کی قدر نہ کرے، تو وہ دراصل اپنے ایک نئے دین کی طرف لوگوںکو دعوت دے رہا ہے۔
یہ چار باتیں ایک لازمی معیار کے طور پر قائم کی جانی چاہئیںبلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر یہ چار اصول پورے نہیں ہوتے، تو ایسے شخص کے گمراہ کن باتوں کا جواب دینا علماء کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہے۔
بعض گمراہ لوگوں کے بارے میں ان کے عقیدت مند اکثر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آپ کا ان سے علمی اختلاف کس بات پر ہے؟ حالانکہ علمی اختلاف تو اس شخص سے کیا جاتا ہے جو علمی اعتبار سے کوئی مقام اور حیثیت رکھتا ہو۔ اگر کوئی شخص بنیادی علمی حیثیت یا سند ہی نہیں رکھتا، تو اس کی باتوں کا جواب نہ دینا علمائے کرام پر لازم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

