آپس میں اُلجھنا تو اسلام میں ہے ہی نہیں! (146)۔

آپس میں اُلجھنا تو اسلام میں ہے ہی نہیں! (146)۔

اسلامی تعلیمات میں جدال کرنا اور زبردستی اپنی رائے منوانے کی کوشش کرنا ایک ایسا امر ہے جس کو اکابرین علمائے کرام نے چھوڑ دیاہے ۔ اور یہی نتیجہ اخذ کیا کہ اسکا کوئی بھی فائدہ فریقین میں سے کسی کو نہیں ہوتا ۔ الا یہ کہ ذی اثر اور ذی شعور لوگوں کی نگرانی میں مختصر سا مناظرہ مجاز ہوسکتا ہے۔
مگر ہمارے ملک پاکستان میں جو طریقہ رائج ہوچکا ہے کہ کوئی بھی امام مسجد، عالم دین یا پھر اسکالر اپنی ایک بات کہتا ہے اورپھر اُس پر ڈٹ جاتا ہے ۔ اور پھر اسلامی تعلیمات کو اپنی بات کے مطابق توڑ موڑ کر پیش کرتا ہے ۔ حتیٰ کہ مناظرہ میں ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے کہ دینی احکام پس پشت رہ جاتے ہیں اور مناظرین کی کوشش صرف یہی ہوتی ہے کہ ہم اپنی بات منوا لیں ۔ حالانکہ اسلام میں تو دعوت اور دلیل کی صرف اتنی ہی تاکید ہے کہ کوئی شخص گمراہ ہورہا ہو تو اُسکو دعوت دو اور کسی کے دل میں غلط فہمی پیدا ہوجائے تو دلیل سے دور کردو ۔ اور یہ سب کام بھی بالموعظۃ والحسنۃ ہونا چاہئے ۔
حکمت کا پہلو چھوڑ دینے سے بلاوجہ فسادات میں لوگ الجھ جاتے ہیں ۔ ائمہ کرام اور خطبائے کرام کو چاہئے کہ اگر کوئی بات کبھی سبقت لسانی سے کہہ بیٹھیں تو فوراً سے پہلے اُس سے رجوع کرلیں یا پھر جو بھی موقع محل کے مطابق جواب ہو وہ بنا کر فساد و فتنہ کو روک لیں۔ جیسے ایک شخص نے کسی حدیث کو بیان کرنے کے دوران یہ کہہ دیا کہ کوا حلال ہے۔ اب کیونکہ عرف عام میں لوگوں کے لئے یہ نیا مسئلہ تھا تو انہوں نے پوچھ گچھ کی تو امام صاحب کسی طرح مسئلہ کو رفع دفع کرسکتے تھے مگر انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر یہ اعلان کردیا کہ میں نے سوفیصد سچ بات کہی ہے اور کوا حلال ہے۔ چلتے چلتے پورے شہر میں بات پھیل گئی اور وہاں جھنگ کے کسی بھی دارالافتاء سے امام صاحب کی تسلی نہ ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ میں فلاں مدرسہ کا فاضل ہوں وہیں سے جا کر فتویٰ لاؤں گا۔ جب اپنے استاذ محترم مفتی صاحب کے پاس پہنچے تو مفتی صاحب نے پہلا سوال یہی کیا کہ کوا حلال ہے یا حرام ہے اس موضوع کو منبر پر چھیڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی اور اگر بات چل پڑی تو اتنا طول دینے کی کیا ضرورت تھی۔ بہرحال پھر مفتی صاحب نے کچھ ذی اثر لوگوں کو بٹھا کر تسلی کروادی۔
تو دوستو! حقیقت یہی ہے کہ ایسے مواقع پر اپنے موقف میں نرمی کرلیں۔ ورنہ پھر ایک نئی جماعت وجود میں آجاتی ہے جس کے مناظرے، مباحثے اورمجادلے چل پڑتے ہیں۔ کراچی کے ایک عالم دین اپنے تمام شاگردوں کو یہی خوبصورت نصیحت کرکے بھیجتے ہیں کہ خواہ دینی مسئلہ ہو یا انتظامی مسئلہ ہو کسی بھی مسجد میں کسی بھی شخص سے الجھنا نہیں ہے۔
اُلجھنا تو اسلام میں ہی نہیں۔ الجھنے کی طاقت اور دفاع کی قوت کو اپنے اندر محفوظ رکھیں اور بوقت مقابلہ کفار اسکو کام میں لائیں۔ ورنہ مسلمانوں کا آپس میں گتھم گتھا ہونا اور الگ جماعتیں بن جانے کا نقصان کسی کافر کو نہیں بلکہ خود مسلمانوں کو ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام کا داعی بنادے اور حکمت و موعظت کی دولت نصیب فرمادے۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more