آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات مہینوں کے متعلق
۔۱۔۔۔۔ ماہ محرم
فضائل۔ ۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینہ کو تعظیم اور احترام کیلئے ’’اللہ کا مہینہ‘‘ اور ’’شہر حرام‘‘ حرمت والا مہینہ فرمایا ہے ۔۲۔ رسول نے رمضان کے بعد روزہ کے لئے اسی مہینہ کو تمام مہینوں سے بہتر اور افضل قرار دیا ہے۔۔۔۔ (ترمذی)۔۳۔ آنحضرت نے فرمایا کہ اس ماہ میں ایک ایسا دن عاشورہ یعنی دسویں تاریخ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات دی اور آئندہ بھی قوموں کو (تکالیف) سے نجات دیگا۔۔۔۔ (ترمذی)
اعمال۔ اس ماہ میں کوئی عمل فرض و واجب یعنی حکم خدا نہیں البتہ اعمال مسنون حسب ذیل ہیں:
۱:۔۔۔۔ عاشورا (دسویں) کا روزہ رکھنا۔۔۔۔ چنانچہ حضور نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور فرمایا۔۱۔ اگلے سال میں نویں کو بھی روزہ رکھوں گا۔۔۔۔ نیز صحابہ کو حکم دیا کہ عاشورا کے ساتھ ایک دن کا روزہ اور ملا لو کہ یہود کی مشابہت نہ ہونے پائے۔۔۔۔‘‘ (ماثبت) یہ روزہ نویں کا یا گیارہویں کا نفل اور مستحب ہے ۔۲۔ فرمایا کہ عاشورا کا روزہ رمضان کے بعد سب روزوں سے افضل ہے۔۔۔۔ اس روزہ سے سال بھر کے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف ہوتے ہیں۔۔۔۔ (ماثبت بالسنۃ)
۲۔۔۔۔ عاشورا کے دن گھر والوں کے کھانے پینے میں فراخدلی سے پیش آنا۔۔۔۔ یہ مستحب ہے آنحضرتؐ نے فرمایا۔۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس دن بال بچوں کے کھلانے پلانے میں کشادہ دلی کا برتائو کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں سال بھر کشادگی اور برکت عطا فرمائے گا۔۔۔۔ (ماثبت بالسنۃ)
(انتباہ) ماہ محرم یا عاشورا کی فضیلت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سبب سے نہیں ہے اس لئے کہ دین تو حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں مکمل ہو چکا تھا۔۔۔۔ اور واقعہ کربلا آنحضرتؐ کی وفات کے ۴۹ برس بعد ہوا اس لئے واقعہ کربلا کی یادگار کے سلسلہ میں کوئی عمل خواہ کتنا ہی اچھا معلوم ہو۔۔۔۔ دین کا فعل نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ لہٰذا ذکر شہادت کا اہتمام۔۔۔۔ نوحہ، تعزیہ، عَلَم، ڈھول بجانا، بچوں کو پیک بنانا، سیاہ کپڑے پہننا، چُوڑی توڑنا، زینت کو حرام کر لینا یہ سب بددینوں کی ایجادیں اور گناہ کی باتیں ہیں۔۔۔۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی پاک سیرت اور زندگی کے حالات کا ذکر دیگر صحابہ اور اولیاء اللہ کے ذکر کی طرح خدا کی رحمت نازل ہونے کا سبب یقینا ہے۔۔۔۔ یہ فعل مباح ہے اور سال کے ہر مہینہ میں ہو سکتا ہے۔۔۔۔
سیدنا حضرت حسینؓ کے مصائب سن کر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھ لینا چاہئے۔۔۔۔ سیدنا حضرت حسینؓ شہید ہیں اور زندہ ہیں اس لئے ان کا ماتم کرنا گناہ ہے۔۔۔۔
۔۲ ۔۔۔۔ ماہِ صفر
نہ اس مہینہ کی کوئی فضیلت منقول ہے نہ اس میں کوئی حکم خداوندی ہے نہ کوئی عمل رسول ثابت ہے البتہ ایک فرمان ضروری آپ سے مروی ہے۔۔۔۔
عرب کے کافر اسلام سے قبل اس ماہ کو منحوس سمجھتے تھے تو آپ نے مسلمانوں کو تعلیم دی ’’ولا صفر‘‘ یعنی (نحوست فلاں چیز میں بھی نہیں ہے فلاں چیز میں بھی نہیں ہے اسی طرح) صفر کے مہینہ میں بھی نہیں ہے۔۔۔۔ (مسلم)
انتباہ:۔۔۔۔ افسوس! جو ہندوستانی مسلمان مرد و عورت اس کا نام ’’تیرہ تیری رکھتے ہیں۔۔۔۔ اور اس کے تیرہ دنوں کو منحوس جانتے ہیں۔۔۔۔ وہ کفار عرب کی پیروی اور پیارے رسول کی مخالفت کرتے ہیں۔۔۔۔ چاہئے کہ اس نام سے پکارنا ترک کر دیں۔۔۔۔ اس ماہ کے آخری چہار شنبہ میں کسی برکت یا فضیلت کا قائل ہونا بھی غلط ہے۔۔۔۔ شریعت میں اس کی کوئی اصلیت نہیں۔۔۔۔
۔۳۔۔۔۔ ماہ ربیع الاول
فضائل۔۔۔۔ یہ مہینہ چار اعتبار سے بزرگ ہے ۔۱۔ اس کی نویں یا بارہویں تاریخ کو ہمارے پاک نبی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے یہ عالم منور ہوا یعنی آپ پیدا ہوئے۔۔۔۔ ۔۲۔ اسی ماہ میں ہمارے پاک نبیؐ پر اللہ کی جانب سے وحی (سورئہ اِقْرَأ) نازل ہوئی اور آپؐ منصب ختم نبوت پر فائز ہوئے۔۔۔۔ ۔۳۔ اسی ماہ میں ہجرت جیسی عبادت آنحضرت نے ادا فرمائی جو مسلمانوں کی ترقی اور غلبہ و حکومت کا سبب بنی۔۔۔۔ ۔۴۔ اسی ماہ کی بارھویں تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیائے فانی کو چھوڑ کر رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔۔۔۔
اعمال:۔۔۔۔ اس ماہ میں نہ کوئی حکم خداوندی ہے اور نہ آنحضرت سے کوئی عمل منقول ہے نہ آپ کے بعد آپ کے عاشق زار صحابہ رضی اللہ عنہم سے کوئی عمل ثابت ہے۔۔۔۔ حالانکہ صحابہ کو جتنی محبت آنحضرتؐ سے تھی اتنی دنیا میں نہ کسی کو تھی نہ کسی کو ہو سکتی ہے۔۔۔۔ اگر اس ماہ میں کوئی عمل مستحسن ہو سکتا تو صحابہ ضرور کرتے۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے اس ماہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کی ولادت کے ساتھ آپ کی وفات بھی جو مقدر اور واقع فرمائی تو اس کا راز یہ تھا کہ اگر اس ماہ میں آپ کی ولادت کا خیال کر کے لوگ خوشی منانا چاہیں جیسے پہلے کے بعض پیغمبروں کے ساتھ کیا تو فوراً آپ کی وفات کا غم بھی یاد آ جائے جو اسی ماہ میں ہوئی۔۔۔۔ اور اگر لوگ اس ماہ میں آپ کی وفات کا لحاظ کر کے غم منانا چاہیں تو فوراً آپ کی ولادت کی مسرت بھی یاد آ جائے۔۔۔۔
اسی طرح مسلمان اپنی طرف سے اس ماہ میں نہ عید مقرر کریں نہ غم کیونکہ عید کا مقرر کرنا دین اور صرف پیغمبر کا کام ہے۔۔۔۔
کاش! مسلمان بھائی ہجرت رسول کی یادگار میں خود بھی اپنے اپنے موجودہ خلاف شرع اعمال سے اعمال رسول کی طرف ہجرت کریں۔۔۔۔ کیونکہ بقول رسول یہ بھی ہجرت ہے پھر غلبہ اور حکومت ان کو بھی ملے۔۔۔۔
۔۴۔۔۔۔ ماہ ربیع الثانی
اس ماہ میں نہ کوئی فضیلت منقول ہے نہ اس میں کوئی حکم خداوندی ہے اور نہ کوئی عمل رسول سے ثابت ہے۔۔۔۔
انتباہ:۔۔۔۔ اس ماہ میں بعض مسلمان بھائی حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا فاتحہ کرتے ہیں جس کو بڑی گیارہویں کہتے ہیں۔۔۔۔ مُردوں یا بزرگوں کو۵و ۶:۔۔۔۔ جمادی الاولیٰ و جمادی الثانیہ ثواب پہنچانا (مستحب) ایک مستحب فعل ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے ثابت ہے۔۔۔۔ ہم یہاں حضور کا طریقہ ایصال ثواب لکھے دیتے ہیں تاکہ عاشقان رسول ہر ایصال ثواب میں اسی کے مطابق عمل کریں۔۔۔۔
۔۱۔ آپؐ نے مُردوں کے لئے خدا سے بخشش کی دعا مانگی ہے۔۔۔۔ یہ کام آپؐ نے ہمیشہ کیا ہے اور شب برات میں قبرستان جا کر خاص طور پر کیا ہے۔۔۔۔
۔۲۔ آپؐ نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کی اور دعا فرمائی کہ ’’الٰہی اس قربانی کو میری امت کی طرف سے قبول فرما۔۔۔۔‘‘
اسی طرح آپؐ نے ایک صحابی کو اجازت بلکہ حکم دیا کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے حج کریں اور اس کا ثواب ماں کو پہنچائیں
۔۳۔ آپؐ نے فرمایا جو شخص قبرستان میں آئے اور وہاں سورئہ یاسین پڑھے (اور اس کا ثواب مُردوں کو پہنچانے کی دعا خدا سے کرے) تو اللہ تعالیٰ تمام مُردوں کے عذاب اور تکلیف میں کمی فرما دیتے ہیں۔۔۔۔ نیز فرمایا جو شخص قبرستان میں سورئہ الحمد، سورئہ قُل ہواللہ، سورئہ الہاکم التکاثر پڑھے پھر یوں کہے کہ الٰہی میں نے آپ کا جو کلام پڑھا ہے اور اس کا ثواب جو مجھ کو ملا ہے اس کو یہاں کے مسلمان مردوں اور عورتوں کو بخشتا ہوں۔۔۔۔ تو قیامت کے دن وہ سب اس کی شفاعت کریں گے۔۔۔۔ (شرح الصدور از علامہ سیوطی)
ان سب حدیثوں پر غور کرنے سے حسب ذیل باتیں فاتحہ کے طریقے کے متعلق معلوم ہوتی ہیں۔۔۔۔
۔۱:۔۔۔۔ مُردے بھی قابل ہمدردی کا کوئی اور طریقہ ہے ہی نہیں بجز اس طریق کے جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعلیم فرما گئے ہیں۔۔۔۔
۔۲:۔۔۔۔ ایصال ثواب سے گناہگاروں کو تو عذاب اور تکلیف میں کمی کا فائدہ پہنچتا ہے اور بچوں، نیک بندوں یا بزرگوں کو مدارج کے بڑھنے کا فائدہ پہنچتا ۔ہے۔۔۔۔
۔۳:۔۔۔۔ اوپر کی پہلی اور تیسری حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مردوں کو بدنی عبادت (قرآن پڑھنا، نماز، روزہ، حج کرنا، کلمہ شریف، درود شریف، استغفار، سبحان اللہ والحمدﷲ پڑھنا) کا ثواب بھی پہنچتا ہے۔۔۔۔ اور دوسری حدیث سے معلوم ہوا مُردوں کو مالی عبادت (قربانی کرنا، حج کرنا، غریبوں کو کھلانا، کپڑا پہنانا، نقد دینا) کا ثواب بھی پہنچتا ہے۔۔۔۔
۔۴:۔۔۔۔ کوئی شخص جو یہ نفلی عبادت ( مالی یا بدنی) کرتا ہے تو ثواب پہلے تو خود اس کو ملتا ہے کیونکہ عمل اسی کا ہے جب عبادت کر چکنے کے بعد یعنی ثواب کا مستحق ہو چکنے کے بعد وہ خدا سے یوں کہے ’’کہ الٰہی میں اپنی اس عبادت کا ثواب فلاں کو (ایک کو یا کئی کو) پہنچاتا ہوں۔۔۔۔‘‘ تب وہ ثواب ان مردوں کو بھی اتنا ہی ملتا ہے اور پڑھنے والے کو بھی اتنا ہی ملتا ہے۔۔۔۔ پس اگر کوئی عبادت کرنے اور ثواب کا مستحق ہونے سے پہلے یہ کہدے کہ اے اللہ! اس کا ثواب فلاں کو پہنچا دے (جیسے کھانا ابھی غریب محتاج کو دیا نہیں گھر میں رکھا ہے اور خدا سے دعا کر لی) یا عبادت کر لے اور زبان سے یہ دعا نہ کرے تو ثواب مُردوں کو نہیں پہنچتا۔۔۔۔
(فائدے) مالی عبادات میں چند باتوں کا خیال رکھنا چاہئے ۔۱۔ مال چونکہ اللہ نے دیا ہے۔۔۔۔ لہٰذا اسی کے نام پر اسی کو خوش کرنے کے لئے۔۔۔۔ اسی سے دنیو ی اور اُخروی نفع لینے کی نیت سے خرچ کرے۔۔۔۔ ۲۔ خوشی دل سے خرچ کرے۔۔۔۔ جبر سے یا برادری کی مجبوری سے نہ کرے کیوں کہ اس صورت میں ثواب خود اسی کو نہیں ملتا تو مُردوں کو کیا پہنچائے گا۔۔۔۔ ۳۔ طیب مال سے کرے۔۔۔۔ سودی لے کر عبادت کرنا اور ثواب کی امید رکھنا گناہ ہے۔۔۔۔ ۴۔ بہت غریب اور محتاج کو دے اور چھپا کر دے نام و نمود کا دخل نہ ہونے پائے۔۔۔۔ اور غریبوں کو وہ چیز دے جس کی ان کو حاجت ہو۔۔۔۔ ۔۵۔ چونکہ مال ہر ہر وقت موجود نہیں رہتا اس لئے بیچارے مُردوں کو آرام پہنچانے کو مال ملنے کے وقت تک ملتوی نہ رکھے۔۔۔۔ مُردوں کو ثواب پہنچانے کی سبیل تو اللہ تعالیٰ نے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہر وقت کھول دی ہے جس وقت کوئی عزیز یا بزرگ یا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یاد آ گئے۔۔۔۔ فوراً کچھ پڑھ کر مثلاً قل ہو اللہ۔۔۔۔ کلمہ شریف وغیرہ پڑھ کر ثواب پہنچا دے۔۔۔۔ کیونکہ کھانا۔۔۔۔ مٹھائی وغیرہ مالی عبادت کو اور قرآن کلمہ پڑھنا۔۔۔۔ بدنی عبادت کو ساتھ ساتھ کرنا ضروری نہیں۔۔۔۔ نہ ان دونوں کا ساتھ ساتھ کرنا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔۔۔۔ اس لئے مالی عبادت کے انتظار میں آسان بدنی عبادت سے ثواب پہنچانے کو ملتوی نہ کرے۔۔۔۔
۔۵و ۶:۔۔۔۔ جمادی الاولیٰ و جمادی الثانیہ
ان مہینوں میں نہ کوئی فضیلت ہے نہ کوئی حکم خداوندی نہ کوئی عمل رسول صلی اللہ علیہ وسلم
۔۷۔۔۔۔ ماہ رجب
فضائل۔۱۔۔۔۔ جب یہ مہینہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے یوں دعا فرماتے۔۔۔۔
’’ اے اللہ! ہم کو رجب اور شعبان میں برکت یعنی نفع تام عطا فرما اور ہم کو رمضان تک پہنچا۔۔۔۔‘‘
۔۲۔ اسی ماہ میں ایک شب کو (جس کی زیادہ مشہور تاریخ ۲۷ ہے) اللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قدرت دکھانے کے لئے جاگتے میں جسم کے ساتھ براق پر مکہ سے بیت المقدس شام تک اور پھر وہاں سے عرش تک رفرف پر سفر کرایا۔۔۔۔ اس وقت آپ کی عمر ۴۹ سال یا ۵۱ سال کی تھی۔۔۔۔ نماز معراج میں فرض ہوئی۔۔۔۔
اعمال:۔۔۔۔ اس ماہ میں کوئی حکم خداوندی یعنی عمل فرض و واجب نہیں۔۔۔۔ اعمال مسنونہ یہ ہیں۔۔۔۔
۔۱:۔۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ میں نفل روزے بکثرت رکھے ہیں۔۔۔۔
۔۲:۔۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ میں نفل نماز بکثرت پڑھی ہیں۔۔۔۔
انتباہ:۔۔۔۔ اس ماہ میں تین باتیں کچھ مسلمان بھائی کیا کرتے ہیں۔۔۔۔
۔۱۔ رجب کے جلسے۔۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج شریف کی یادگار اور تذکرے کے لئے شاندار جلسے کرتے ہیں۔۔۔۔ جن میں حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔۔۔۔ ستائیسویں شب کو چراغاں۔۔۔۔ شب بیداری میں بعض تو وقت گزاری کیلئے گراموفون بجاتے اور دکانوں کو تصاویر سے سجاتے ہیں وغیرہ۔۔۔۔
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے یہ معنی کہاں ہیں کہ ان کی یاد میں جلسہ ہو اور انہیں کے حکم کے خلاف تصاویر سے آرائش کی جائے۔۔۔۔ نیز معراج کی یادگار میں جلسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں جو عشاق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔۔۔۔ اور جن میں اس کا زیادہ جوش اور ولولہ تھا۔۔۔۔ رجبی کا جلسہ ایک بزرگ نے غلبہ حال میں کیا تھا وہ خود معذور تھے ہم کو ان کی نقل کرنا اور ان کی سنت جاری رکھنا نہ ضروری ہے نہ مصلحت۔۔۔۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ معراج شریف کی یادگار میں حق تعالیٰ نے اپنے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل عام مسلمانوں کو بھی ایک معراج عطا فرمائی تھی اور وہ نماز ہے۔۔۔۔ مسلمان بھائی کثیر تعداد میں پنج وقتہ نماز باجماعت مسجدوں میں ادا کرتے رہیں تو یہ خود ہی معراج شریف کی اصلی یادگار اور رجبی کا دینی جلسہ و اجتماع ہے۔۔۔۔ مگر اس دینی جلسہ (یعنی نماز باجماعت ادا کرنے) کی بجائے لوگ جلسہ کر لینے کو معراج کی یادگار کافی سمجھ لیتے ہیں۔۔۔۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔۔۔۔
۔۲۔ اسی ۲۷ / تاریخ کو معراج کی یادگار میں روزہ رکھنے کو ہزاری روزہ، بی بی مریم کا روزہ وغیرہ کہتے ہیں اور اس کو ایک ہزار روزہ کے برابر سمجھتے ہیں۔۔۔۔ اس کا کوئی قوی ثبوت حدیث و فقہ میں نہیں ہے۔۔۔۔ نہ رسول نے یہ تاریخ مقرر کی نہ یہ ثواب بتایا۔۔۔۔ کسی تاریخ میں ایک روزہ تو ثابت ہے۔۔۔۔ اگر کوئی ۲۷ ہی کو وہ روزہ رکھے تو عام نفل روزہ سمجھ کر رکھ لے۔۔۔۔
۔۳۔ اس ماہ کی ۲۲ تاریخ کو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی تاریخ ہے۔۔۔۔ بددینوں کو صحابہ رسول سے بُغض تو ہے ہی۔۔۔۔ انہوں نے ایک فرضی من گھڑت قصے کے ذریعے اسی دن ’’کونڈے کی عید‘‘ منائی اور سُنیوں کو دھوکے میں ڈالنے کے لئے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے فاتحہ کا نام لے دیا۔۔۔۔
سُنی بھائی اس چکمہ میں آ کر بددینوں کی طرح اس دن گھی کی پوریاں پکاتے اور کھاتے کھلاتے ہیں۔۔۔۔ انا ﷲ۔۔۔۔ رسول کے صحابی کی تاریخ وفات میں عید منا کر گھی کے چراغ جلا کر گھی کی پوریاں پکا کر مسلمان فلاح نہیں پا سکتے۔۔۔۔ اللہ مسلمان بھائیوں سے یہ بلا چھُڑائے۔۔۔۔
۔۸۔۔۔۔ ماہ شعبان
(فضائل)۱۔۔۔۔ اس مہینہ کو رسول مقبول نے اپنا مہینہ فرمایا۔۔۔۔ تاکہ آپ سے محبت رکھنے والے مسلمان آپ کا خیال کر کے اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کریں اور معصیت سے بچنے کا زیادہ اہتمام کریں۔۔۔۔
۔۲۔۔۔۔ اس ماہ کی پندرھویں شب کو وہ رات ہے جسے قرآن میں ’’لیلۃ مبارکہ‘‘ اور حدیث میں ’’لیلۃ البراء ۃ‘‘ کہا گیا ہے اسی کو ہم شب برات کہتے ہیں اس شب کے متعلق آپ نے فرمایا کہ
۔۱۔ ’’لیلۃ البراء ۃ‘‘ شب قدر (رمضان والی) کے بعد تمام راتوں سے افضل ہے۔۔۔۔
۔۲۔ (مثل شب قدرکے) اس شب میں بھی غروب آفتاب کے بعد ہی سے صبح صادق تک اللہ تعالیٰ اپنا دربار عام بندوں سے قریب یعنی پہلے آسمان پر منعقد کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ کوئی گناہ بخشوانا چاہے تو میں بخش دوں کوئی روزی مانگے تو میں روزی دوں کوئی مصیبت سے نجات مانگے تو میں اسے نجات دوں۔۔۔۔
چنانچہ ان تین آدمیوں کے سوا یعنی اول ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا دوسرے مسلمانوں سے کینہ و بغُض رکھنے والا تیسرے کسی شرعی وجہ کے بغیر خاندان سے قطع تعلق کرنے والا) سب کی جائز دعا قبول ہوتی ہے۔۔۔۔
۔۳۔ اس شب میں آئندہ سال پیدا ہونے والے۔۔۔۔ مرنے والے لوگوں کے نام لوحِ محفوظ سے نقل کر کے کارکن فرشتوں کو دیدئیے جاتے ہیں۔۔۔۔ اسی طرح ہر شخص کی یکسالہ روزی۔۔۔۔ عمر، علم، عمل، اولاد وغیرہ کی بھی تقسیم ہوتی ہے اور کارکن فرشتوں کے سپرد کر دی جاتی ہے۔۔۔۔
۔۴۔ اس شب میں تمام انسانوں کے گذشتہ سال کے اعمال خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔۔۔۔
(اعمال) اس ماہ میں کوئی حکم خداوندی نہیں ہے البتہ عمل رسول یہ ہیں۔۔۔۔
۔۱۔ شعبان کے چاند کی فکر اور اس کے تاریخ و حساب کا اہتمام رکھنا تاکہ رمضان شریف کے چاند کا حساب ٹھیک معلوم ہو سکے۔۔۔۔
۔۲۔ چودہ تاریخ سے پہلے پہلے کثرت سے نفلی روزہ رکھنا۔۔۔۔ کیونکہ پندرہ کے بعد نفلی روزہ رکھنے سے آپ نے منع فرمایا ہے کہ کہیں ان نفلی روزوں کی تھکاوٹ سے رمضان کے فرض روزوں میں سستی نہ ہو۔۔۔۔
۔۳۔ پندرہویں شب کو رات بھر جاگنا (اور اگر رات بھر جاگنا ممکن نہ ہو تو عشاء اور فجر کی نمازیں حسب معمول جماعت سے پڑھنا) نفلیں پڑھنا اپنے لئے اور اپنے مُردہ اعزاء بلکہ تمام زندہ مُردہ مسلمانوں کے لئے خدا سے دعاء مغفرت کرنا۔۔۔۔ قبرستان میں تنہا یا ایک دو آدمی کے ساتھ جانا اور تمام کے لئے دعا کرنا۔۔۔۔
۔۴۔ اگلے دن یعنی پندرہویں کو صرف ایک دن روزہ رکھنا۔۔۔۔
۔انتباہ۔۔۔۔ ۱۔ چودھویں تاریخ پندرھویں شب میں پٹاخے چھڑانا۔۔۔۔ حلوہ پکانا سبائیوں کا طریقہ ہے کیونکہ ان کے ’’امام غائب‘‘ جب بھی ظاہر ہوں گے اسی تاریخ میں ظاہر ہوں گے وہ انہیں کے استقبال میں یہ سب کرتے ہیں مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہئے۔۔۔۔
۔۲۔ اس روزہ میں عرفہ کے نام سے دوسرا روزہ جوڑنا غلط ہے۔۔۔۔
۔۳۔ رمضان سے ایک یا دو دن پہلے کوئی واجب روزہ بھی نہ رکھنا چاہئے۔۔۔۔
۔۴۔ شعبان کا آخری دن اگر دو شنبہ یا پنجشنبہ ہو اور کسی کی ہمیشہ سے یہ عادت ہو کہ اس دن روزہ رکھے تو وہ البتہ اپنے معمول کے مطابق نفلی روزہ رکھ سکتا ہے۔۔۔۔
۔۵۔ جس دن یہ شک ہو کہ رمضان کی پہلی ہے یا شعبان کی آخری اس دن مفتی اور خواص علماء تو صرف نفل کی نیت سے روزہ رکھ لیں۔۔۔۔ رمضان کی پہلی ثابت ہو جانے پر وہ روزہ خود ہی رمضان کا شمار ہو جائے گا۔۔۔۔ مگر عوام کا روزہ افطار کرا دیں، فرض روزہ اور نفل روزہ کا تذبذب نہ ہو۔۔۔۔ بلکہ صرف نفلی روزہ کی پختہ نیت ہو۔۔۔۔
۔۹:۔۔۔۔ ماہِ رمضان المبارک
فضائل:۔۔۔۔ ۱۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ۔۔۔۔ عظمت و برکت کا مہینہ، محتاجوں کی ہمدردی کا مہینہ ہے۔۔۔۔
۔۲۔ اس ماہ میں قرآن مجید (لوح محفوظ سے پہلے آسمان پر) نازل ہوا ( پھر پہلے آسمان سے دنیا میں آں حضرتؐ پر پہلے پہل ماہ ربیع الاول میں سورئہ اِقرأ کا نزول ہوا۔۔۔۔)
۔۳۔ دوسرے پیغمبروں پر اللہ کی پاک کتابیں۔۔۔۔ توراۃ۔۔۔۔ زُبور۔۔۔۔ انجیل بھی اسی ماہ مبارک میں لوح محفوظ سے نازل ہوئیں۔۔۔۔
۔۴۔ اس ماہ میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے اس میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر ملتا ہے۔۔۔۔
۔۵۔ چاند رات ہی سے سرکش جنوں اور شیطانوں کو قید کر دیا جاتا ہے۔۔۔۔
۔۶۔ جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔۔۔۔
۔۷۔ ہر رات کو اللہ تعالیٰ کا منادی پکارتا ہے ’’اے نیکی کے جویا ادھر آ۔۔۔۔ اے بُرائی کے شیدائی رُک جا۔۔۔۔
۔۸۔ اس ماہ میں صاحب ایمان کا رزق بڑھایا جاتا ہے۔۔۔۔
۔۹۔ ہر رات کچھ دوزخ کے مستحق دوزخ سے آزاد کئے جاتے ہیں۔۔۔۔
۔۱۰۔ اس ماہ کے دن بہت برکت والے ہیں۔۔۔۔
اعمال:۔۔۔۔ اس ماہ میں احکام خداوندی یہ ہیں۔۔۔۔
۔۱۔ پورے مہینہ کا روزہ رکھنا یعنی ہر بالغ مسلمان کا صبح صادق (قولہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک الخ روزے کی حقیقت یہ ہے کہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور جماع سے پرہیز کرنا۔۔۔۔ جھوٹ گالی غیبت اور لڑائی وغیرہ سے پرہیز کرے ورنہ روزہ ناقص ہو جائے گا اگرچہ فرض ادا ہو جائے گا۔۔۔۔) سے غروب آفتاب تک جھوٹ گالی غیبت سے، لڑائی سے، کھانے پینے سے اور مباشرت و جماع سے پرہیز کرنا (صرف بھوکا رہنا روزہ نہیں فاقہ ہے)
اعمال:۔۔۔۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہیں۔۔۔۔
۔۱۔ ہر روز بعد عشاء بیس رکعات تراویح باجماعت پڑھنا۔۔۔۔ ۲۔ تراویح میں ایک قرآن پورا پڑھنا یا سننا۔۔۔۔ ۳۔ تراویح کے بعد وتر جماعت سے پڑھنا۔۔۔۔ ۴۔ شب قدر کی تلاش میں اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں جاگنا۔۔۔۔ ۵۔ محتاجوں کو کھانا کھلانا اور سلوک کرنا۔۔۔۔ ۶۔ غلام باندی۔۔۔۔ نوکر۔۔۔۔ ماما سے کم کام لینا۔۔۔۔ ۷۔ روزہ داروں کو افطار کرانا یا کھانا کھلانا۔۔۔۔ ۸۔ اخیر کے دس دنوں میں اعتکاف کرنا۔۔۔۔ مرد مسجد باجماعت میں اور عورت گھر کے کسی کونہ میں (قولہ گھر کے کسی کونہ میں الخ بلکہ پورے کمرے میں اعتکاف کر سکتی ہے) ۔۔۔۔
(فائدہ)۔۔۔۔ اعتکاف (قولہ اعتکاف کا معنی یہ ہے الخ اعتکاف کا مفہوم یہ ہے کہ سب کام چھوڑ کر نیت کے ساتھ مسجد میں رہنا اور بغیر ضرورت انسانی کے باہر نہ جانا) کے معنی ہیں سب کام چھوڑ کر اللہ کے دروازے پر آ پڑنا۔۔۔۔ اور اسی کا نام رٹنا۔۔۔۔ یہ تین قسم کا ہوتا ہے۔۔۔۔ ایک فرض یعنی وہ اعتکاف جو منت اور نذر میں مانا ہوا اس کا پورا کرنا فرض ہے۔۔۔۔ ایک سنت مؤکدہ کفائی یعنی وہ جو رمضان کے اخیر عشرہ کے دس دن کا ہوتا ہے (ہر بستی یا بڑے محلہ سے ایک آدمی ضرور معتکف ہو ورنہ سب ترک سنت کے گناہگار ہوں گے) اور ایک مستحب جو ہر وقت ہو سکتا ہے اس میں روزہ بھی شرط نہیں۔۔۔۔
انتباہ:۔۔۔۔ ختم تراویح کے دن روشنی کرنا۔۔۔۔ شیرینی بانٹنا۔۔۔۔ جھنڈیاں لگانا محض فضول خرچی ہے نہ حکم خدا ہے نہ عمل رسول اس لئے اس پر جمے رہنا مناسب نہیں اسی طرح شیرینی کا چندہ جبراً لینا۔۔۔۔ شیرینی لینے کے لئے مسجد میں شور مچانا جائز نہیں ہے۔۔۔
۔۱۰ ۔۔۔۔ماہِ شوال
فضائل: ۱۔ اس ماہ کا پہلا دن عیدالفطر کا دن ہے جو خدا کے انعام اور رحمت اور برکت کا دن ہے اس دن خدا تعالیٰ روزہ داروں پر فخر فرماتا ہے۔۔۔۔
۔۲۔ یہ مہینہ حج کے مہینوں میں سے پہلا مہینہ ہے۔۔۔۔
۔(اعمال) اس میں احکام خداوندی یہ ہیں:۔۔۔۔
۔۱۔ پہلی تاریخ کو عید کی نماز پڑھنا واجب ہے اس نماز میں چھ واجب تکبیریں زائد کہنی چاہئیں:
۔۲۔ خطبہ عید پڑھنا سنت ہے اور اس کے سننے کے لئے ٹھہرنا بھی سنت ہے مگر جو سننے کے لئے ٹھہر جائے تو پھر اس پر خطبہ سننا واجب ہے۔۔۔۔ (شرح تنویر)
۔۳۔ صاحب نصاب پر صدقہ فطر دینا واجب ہے یہ صدقہ کی جنس یا نقد مسلمان غریبوں ہی کو دینا چاہئے کافر کو دینے سے ادا نہیں ہوتا۔۔۔۔
۔۴۔ پہلی کو روزہ رکھنا حرام ہے۔۔۔۔
۔اعمال رسول یہ ہیں۔۔۔۔
۔۱۔ ثواب لینے کی نیت سے عید کی را ت میں جاگنا۔۔۔۔ ۲۔ عید کی نماز کے لئے مسواک کرنا۔۔۔۔ ۳۔ غسل کرنا۔۔۔۔ ۴۔ مقدرت بھر صاف اچھے کپڑے پہننا۔۔۔۔ ۵۔ خوشبو لگانا سرمہ لگانا (قولہ سرمہ لگانا الخ سرمہ لگانا عید یا جمعہ کی سنت نہیں بطور علاج کے اور سنت کی نیت سے رات سونے سے پہلے۔ لگانا چاہئے) ۶۔ عید گاہ جانے سے قبل میٹھی چیز کھا لینا۔۔۔۔ ۷۔ صدقہ فطر عیدگاہ جانے سے قبل ادا کر دینا۔۔۔۔ ۸۔ عید گاہ جانا اور راستے میں آہستہ آہستہ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اﷲ واللہ اکبر اللہ اکبر وﷲ الحمد کہتے جانا۔۔۔۔ ۹۔ عیدگاہ ایک راستہ سے جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا۔۔۔۔ ۱۰۔۔ امام کا نماز کے بعد خطبہ پڑھنا اور خطبہ میں وعظ و نصیحت کے ساتھ صدقہ فطر کے مسائل بھی بیان کرنا۔۔۔۔ ۱۱۔ اس مہینہ میں چھ دن نفل روزہ رکھنا مسنون ہے اس کا ثواب سال بھر روزہ رکھنے کے برابر ہے۔۔۔۔ ۱۲۔ اس ماہ میں شادی کرنا اور لڑکی کی رخصتی کرنا مسنون ہے۔۔۔۔
انتباہ:۔۔۔۔ ۱۔ عید کے دن نماز عید سے قبل کوئی نفل نماز نہ گھر پڑھے۔۔۔۔ نہ عیدگاہ میں۔۔۔۔ چاشت و اشراق (قولہ چاشت اور اشراق ساقط ہے الخ مگر عید کے بعد گھر میں آ کر نوافل ادا کرنا درست ہے) بھی اس دن ساقط ہے۔۔۔۔
۲۔ عید کے دن سیوئیں (قولہ عید کے دن الخ عید کے دن سیوئیں کھانے کو ضروری سمجھنا بدعت ہے) ویسے کھالے مگر ان پر فاتحہ دینا اور اس کو دین اور لازم سمجھنا غلط ہے۔۔۔۔
۔۳۔ نماز عید کے بعد گلے ملنا۔۔۔۔ (قولہ نماز کے بعد گلے ملنا الخ بطور رسم کے عید ملنا بدعت ہے اگر رسم کے طور پر نہ ہو بلکہ ملاقات اسی وقت ہوئی ہے تو ملنے میں حرج نہیں خصوصاً جب عیدگاہ کے باہر ہو) ہاتھ ملانا رسول کا نہیں ہندوئوں اور رافضیوں کا طریقہ ہے البتہ صحابہؓ سے ’’تَقَبَّلَ اﷲُ مِنَّا وَمِنْکُمْ‘‘ کہنا ثابت ہے۔۔۔۔ (یعنی ہماری تمہاری عبادتیں قبول ہوں) عید مبارک کہنے میں بھی کچھ مضائقہ نہیں (غایۃ الاوطار ج۱ ص ۳۸۵)
۔۴۔ گود کے بچوں کو عیدگاہ یا مسجد لے جانا خلاف مصلحت ہے۔۔۔۔
۔۱۱:۔۔۔۔ ماہ ذیقعد
یہ مہینہ بھی فضیلت و برکت کا ہے کیونکہ یہ حج کے مہینوں میں سے دوسرا مہینہ ہے اس میں عمل رسول یہ ہیں کہ جو شخص حج کو جانا چاہے وہ سفر کی تیاری شروع کر ے۔۔۔۔
انتباہ۔ بعض بھائی اس ماہ میں شادی بیاہ کو مبارک نہیں سمجھتے۔۔۔۔ ایسا عقیدہ بنا لینا توحید اور عمل رسول کے خلاف ہے۔۔۔۔
۔۱۲۔۔۔۔ ماہ ذی الحجہ
(فضائل) ۔۱۔ یہ نہایت مبارک اور پُر فضیلت مہینہ ہے۔۔۔۔ ۲۔ اس ماہ کی شروع کی دس راتیں سال بھر کی کل راتوں سے افضل ہے۔۔۔۔ علماء کہتے ہیں کہ دن رمضان کے اور راتیں ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کی بہت ہی بابرکت ہیں۔۔۔۔ سورئہ والفجر کی آیت ’’وَلَیَالٍ عَشْرٍ‘‘ سے یہی راتیں مراد ہیں۔۔۔۔ ان میں جاگنا عبادت کرنا، شب قدر میں جاگنے اور عبادت کرنے کے برابر ہے۔۔۔۔
۔۳۔ اس کی نویں تاریخ یعنی عرفہ کے دن حج جیسی افضل عبادت کا دن ہے اس کا روزہ ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔۔۔۔
۔۴۔ اس کی دسویں کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خدا کی محبت میں بیٹے کی قربانی کرنی چاہی تھی۔۔۔۔ پس قربانی صاحب نصاب پر لازمی اور خدا کو محبوب ہے۔۔۔۔
اسکا مطلب اپنی جان اور اپنے بیٹوں کی جان کے بدلے خدا کی راہ اور محبت میں جانور کو قربان کرنا ہے۔۔۔۔ قربانی کے بدلے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی طرف سے انکے دشمنوں کو ہٹاتا رہتا ہے۔۔۔۔
اعمال خداوندی احکام یہ ہیں۔۔۔۔
۔۱۔ نویں کو فجر کی نماز کے بعد سے لے کر تیرہویں کی نماز عصر کے بعد تک ہر فرض باجماعت کے بعد یہ تکبیر کہنا واجب ہے۔۔۔۔ اَﷲُ اَکْبَرُ اَﷲُ اَکْبَرُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ اَﷲُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔۔۔۔
۔۲۔ نماز عید واجب مع چھ زائد واجب تکبیروں کے پڑھنا۔۔۔۔ ۳۔ صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے ۔۴۔ اگر موجود رہے تو خطبہ سننا واجب ہے ۔۵۔ دسویں۔۔۔۔ گیارہویں، بارہویں، تیرہویں۔۔۔۔ ان چار دنوں کا روزہ حرام ہے۔۔۔۔
ان کے علاوہ اعمال رسول یہ ہیں:۔۔۔۔
۔۱۔ پہلی سے دس تاریخ تک خاص طور پر نیک اعمال، مخلوق کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کا اہتمام کرنا تاکہ طبیعت کو نیک عمل کی مشق ہو۔۔۔۔
۔۲۔ پہلی سے نویں تک نفل روزے رکھنا۔۔۔۔ اگر ۹ دن نہ ہو سکے تو نویں کا نفل روزہ ضرور رکھنا۔۔۔۔
۔۳۔ چاند رات سے دسویں تک ہر رات میں عبادت کے لئے جاگنا خاص کر عید کی شب میں ثواب کی نیت سے جاگنا۔۔۔۔
۔۴۔ جس کو قربانی کرنا ہو وہ پہلی سے قربانی تک حجامت نہ بنوائے نہ ناخن کُتروائے۔۔۔۔
۔۵۔ عید کے دن غسل کرنا۔۔۔۔ ۶۔ مسواک کرنا، خوشبو لگانا، تیل سُرمہ (قولہ سرمہ لگانا الخ سرمہ لگانا عید کی سنت نہیں) لگانا، کنگھی کرنا۔۔۔۔ ۷۔ عیدگاہ ایک راستہ سے جانا دوسرے راستہ سے آنا۔۔۔۔ ۔۸۔ عیدگاہ کو جاتے ہوئے ذرا بلند آواز سے تکبیر کہنا۔۔۔۔ ۹۔ قربانی سے پہلے عید کے دن کچھ نہ کھانا اور اپنی قربانی کا گوشت ہی اس دن پہلی چیز کھانا۔۔۔۔ ۱۰۔ امام کا بعد نماز خطبہ پڑھنا جس میں نصیحت کے ساتھ قربانی کے احکام و ترغیب ہو نیز ایام تشریق تکبیر کی ترغیب ہو۔۔۔۔
(انتباہ) عید الاضحیٰ کے دن بھی اشراق و چاشت (قولہ اشراق چاشت ساقط ہے الخ عید کی نماز سے پہلے یا بعد عیدگاہ میں نوافل درست نہیں عید کے بعد گھر میں نوافل درست ہیں) ساقط ہے۔۔۔۔
سنت والی زندگی اپنانے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر مطلوبہ کیٹگری میں دیکھئے ۔ اور مختلف اسلامی مواد سے باخبر رہنے کے لئے ویب سائٹ کا آفیشل واٹس ایپ چینل بھی فالو کریں ۔ جس کا لنک یہ ہے :۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M
