آزادی کی وبا اور اصلاح کا طریقہ
ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ آج کل آزادی ہو گئی ہے یہ مرض نیچریوں میں ہے جو منہ میں آیا بک دیا جو جی میں آیا کر لیا حالانکہ دین بدون وحی کی اتباع کے سلامت نہیں رہ سکتا ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت فلاں صاحب کے بھی آزاد خیالات ہیں حضر ت کے یہاں آ کر امید ہے کہ ان کے خیالات درست ہو جائیں اگر اجازت ہو تو ان کو مشورہ دیا جائے فرمایا کہ ایسا مشورہ دینامفید نہیں اگر دوسرے کے مشورے سے آئیں گے تو شاید نکال دیئے جائیں اصلاح ہوتی ہے جبکہ خود طلب ہو بدون اپنی طلب کے اصلاح نہیں ہوا کرتی یہ مسلمہ مجربہ مسئلہ ہے آپ ہرگز مشورہ نہ دیں اگر وہ خود آنا چاہیں آئیں میں چند شرائط کے ساتھ اجازت دیدونگا اس وقت امید ہے کہ شاید اصلاح ہو جائے ان کے دماغوں میں جو فرعونیت بھری ہوئی ہے۔ اس کا علاج ضابطہ ہی کے برتاؤ سے ہوتا ہے میں ایک مرتبہ ضلع مراد آباد کے ایک قصبہ میں مدعو کیا گیاوہاں پر ایک وعظ بھی ہوا قبل وعظ ایک جنٹلمین صاحب علی گڑھ کالج کے تعلیم یافتہ تشریف لائے اور آ کر فرمایا کہ میں آپ سے کچھ عرض کر سکتا ہوں میں نے کہا کہ ضرور کر سکتے ہیں کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کو علی گڑھ والوں سے نفرت ہے میں نے سوچا کہ اگر کہتا ہوں کہ ہاں تب تو تعصب کا شبہ ہوگا اور اگر کہتا ہوں کہ نہیں تو ایک طرح کی چاپلوسی ہے جو واقع کے بھی خلاف ہے حق تعالیٰ نے دل میں ایک بات ڈالی میں نے کہا ان کی ذات سے تو نفرت نہیں افعال سے نفرت ہے کہا کہ وہ کیا افعال ہیں میں نے کہا کہ ہر فاعل کے افعال جدا ہیں کہنے لگے مثلاً میرے کیا افعال ہیں میں نے کہا کہ بعض توبین ہیں (ان کی داڑھی منڈی ہوئی تھی جن کے اظہار کی ضرورت نہیں کہنے لگے کہ وہ بین کون سے افعال ہیں میں نے کہا کہ مجمع میں ظاہر کرنا مناسب نہیں اور تنہائی میں بھی بدون باہمی مناسبت کے ظاہر کرنا نافع نہیں اور مناسبت کا طریقہ یہ ہے کہ چند روز میرے پاس رہئے تاکہ آپ کو مجھ پر اعتماد ہو جاوے کہ یہ خیر خواہی اور ہمدردی سے کہہ رہا ہے اور مجھ کو یہ اطمینان ہو جاوے کہ آپ خلوص سے پوچھ رہے ہیں سمجھ گئے پھر سوال نہیں کیا۔
غرض ان متکبروں کی رعایت کی ضرورت نہیں تجربہ کی بات ہے کہ رعایتی گفتگو کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہر بات اصول کے ماتحت ہونا چاہیے ان ہی اصول میں سے ایک یہ ہے کہ اول یہ دیکھ لیا جائے کہ مخالف کو اپنی رائے فاسد پر جزم ہے یا تردد ہے اگر جزم ہے تو ہم گفتگو نہ کریں گے کہ محض فضول ہے اور اگر تردد ہے تو بیشک گفتگو کریں گے لیکن اس صورت میں بھی گفتگو سے پہلے قدر موانست کی ضرورت ہے تاکہ باہمی اعتماد ہو ورنہ سب کیا کرایابیکار جاویگا اس کی مثال طبیب کی سی ہے کہ ایک نسخہ لکھا اگر مریض کو اعتماد نہیں تو کہہ دے گا کہ ٹھیک نہیں پھر دوسرا لکھا اس کو بھی کہہ دیا کہ ٹھیک نہیں تو طبیب ان کا غلام ہے کہ بیٹھا ہوا نسخے کو استعمال کر کے دیکھے پھر آگے چلے (اس طرح نفع ہوتا ہے اور اگر یہ نہیں تو کیوں وقت بھی بیکار کھویا مولانا رومی اسی امتحان کی ضرورت کو فرماتے ہیں۔
سالہا تو سنگ بودی دل خراش
آزموںرایک زمانے خاک باش
یہ تو طالب میں شرطیں ہیں نیز مصلح میں بھی بڑی شرط ہے کہ حکیم ہو طالب کی حالت کے موافق علاج کرے ایک رئیس کا واقعہ ہے کہ ان کو داڑھی چڑھانے کا مرض تھا تو محض اس خیا ل سے کہ پانچ وقت وضو میں داڑھی کھولنی چڑھانی پڑے گی نماز نہ پڑھتے تھے ایک حکیم بزرگ نے ان سے کہا کہ تم نماز پڑھا کرو خواہ بلاوضو ہی پڑھ لیا کرو یہ نماز نہ تھی تشبہ بالمصلی تھا دو چار وقت تو انہوں نے ایسے ہی پڑھی پھر خیال ہو ا کہ کیا واہیات ہے کہ نماز پڑھی بھی اور بلاوضو بس وضو بھی کرنے لگے۔ یہ ہیں حکیمانہ تدابیر۔(ملفوظات حکیم الامت جلد نمبر ۳)
