آخر کب تک یہ روش چلے گی؟ (322)۔

آخر کب تک یہ روش چلے گی؟ (322)۔

ہمارے معاشرے میں سیاست اور مذہب کے نام پر شدت پسندی ایک ایسا ناسور بن چکی ہے جو نہ صرف ہماری معیشت بلکہ معاشرتی اقدار کو بھی گہرے زخم دے رہی ہے۔ کسی بھی کاروبار، صنعت یا نظام کو ان اثرات سے محفوظ رکھنا ممکن نہیں رہا۔ ہر طرف اختلافات، نفرت اور لڑائی کا ماحول بن چکا ہے
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہم
اس روش پر چلتے رہیں گے؟
اگر ہم موجودہ سیاسی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو تین بڑی جماعتوں، یعنی پاکستان پیپلز پارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان اختلافات اور جھگڑے نمایاں نظر آتے ہیں۔ ہر جماعت کے کارکنان اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خاندان، دوست اور معاشرہ مختلف تقسیمات کاشکار ہوجاتا ہے۔ یہ صورتحال تقریباً ہر پارٹی میں ہے ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم بھول چکے ہیں کہ ہر جماعت اپنے طور پر ملک کی بہتری چاہتی ہے۔اصل مسئلہ،فساد اور خلفشاراس وقت پیدا ہوتا ہے جب سیاست کو ذاتی دشمنی اور جھگڑے کی بنیاد بنا لیا جاتا ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ میرے جیسے ایک عام کتاب فروش کو بھی ان سیاسی تقسیمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک بار میں نے اپنی ویب سائٹ پر عمران خان کی زندگی سے متعلق ایک کتاب اپلوڈ کی، تو مختلف جماعتوں کے لوگوں نے شدید ردعمل دیا۔ نون لیگ والوں نے گالم گلوچ کی، تحریک انصاف کے حمایتی خوش ہوئے، اور باقی لوگ حیران رہ گئے۔ حالانکہ میری نیت صرف کتاب فروخت کرنے کی تھی، سیاست میں کسی قسم کی شمولیت نہیں تھی۔
یہ صورتحال صرف میرا نہیں بلکہ ہر اس شخص کا مسئلہ ہے جو اپنی زندگی کو سیاست سے بالاتر رکھنا چاہتا ہے۔ اور ایک عام معتدل فرد کی طرح رہنا چاہتا ہےمگر اکثر زبردستی ایسے لوگوں پرکوئی لیبل لگادیا جاتا ہے کہ اسکا تعلق فلاں پارٹی سے ہے اور اس کے بعد اس شخص کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے۔دیکھئے کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ میں ایک دوکان میں داخل ہوا تو وہاں ضعیف العمر صاحب بیٹھے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے ووٹ کس کو دیا؟ تو میں نے کہا کہ اپنے وطن سے دور ہونے کی وجہ سے میں گزشتہ الیکشن میں ووٹ نہیں دے سکا۔ تو اُنہوں نے پوچھا کہ اس سے پچھلے الیکشن میں کس کو دیا تھا؟ تو میں نے کہا کہ یاد نہیں۔
انہوں نے پھر پوچھا کہ تمہارے والد نے کس کو ووٹ دیا تھا؟ میں نے بتایا کہ اُنہوں نے شیر کوووٹ دیا تھا۔ بس یہ سننے کی دیر تھی کہ وہ سیخ پا ہوگئے۔
میں کافی دیر تک اُنکی بھڑاس اور ناراضگی کو سنتا رہا مگر وہ یہیں تک محدود نہ رہے بلکہ اُنہوں نے پوری مارکیٹ میں یہ بات مشہور کردی کہ یہ شخص ن لیگی ہے۔میرے لئے وہ پانچ سات دن بہت ہی کٹھن تھے۔ پھر زندگی واپس روٹین پر آگئی۔۔۔
مگر دوستو!ہمیں اس رویے کو بدلنا ہوگا۔ سیاست کو نفرت اور دشمنی کی بنیاد بنانے کا رویہ بدلنا ہوگا۔ ہم سب مسلمان بھائی ہیں۔ ہم سب پاکستانی آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مختلف جماعتوں کے منشور مختلف ہوسکتے ہیں، لیکن ایک مقصد سب کا پاکستان کی ترقی اور خوشحالی ہونا چاہیے۔سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہم سب کو اپنے رویوں میں نرمی اور برداشت لانے کی ضرورت ہے۔ دوسروں کے نظریات کا احترام کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایک قوم بننے کی توفیق عطا فرمائے اور اتحاد و اتفاق کی نعمت سے نوازے۔ آمین۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more