آج کل ہر شخص رائے دہندہ ہے
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل یہ مرض بھی عام ہوگیا ہے کہ خود کچھ نہیں کرتے محض دوسروں کو رائے دیتے ہیں رائے دینا کون سا مشکل ہے یہ تو بہت آسان بات ہے اور خود کرنے کے وقت منہ چھپاتے ہیں۔
اور یہ مرض اکثر نیچریوں میں زیادہ ہوتا ہے ان میں سے مجھ کو جب کوئی رائے دیتا ہے میں اس کی موافقت کرکے طریقہ عمل ایسا بتلاتا ہوں کہ ان کو بھی اس میں کچھ کرنا پڑے بس سب ختم ہوجاتا جس کو دیکھو رائے دہندہ مگر کام کرنے کے نام موت یہ لوگ سب کام مولویوں ہی کے ذمہ سمجھتے ہیں کہ تدابیر بھی یہی سوچیں چندہ بھی یہی جمع کریں عملی جامہ بھی اس کو یہی پہنائیں اور یہ شادی کے سے جوڑے رکھے ہوئے سجا کریں مگر یہاں ایسی باتیں چلتی نہیں چھپی ہوئی چوریاں پکڑی جاتی ہیں۔
اس پر خفا ہوتے ہیں خیر خفا ہوا کریں ہم ان کے نوکر تھوڑا ہی ہیں اصول کے موافق ہر جماعت اور ہر طبقہ پر کام تقسیم ہونا چاہئے یعنی ہر کام اس کے اہل کے ذمہ ہو علماء کا کام جس کے وہ اہل ہیں صرف یہ ہے کہ ان سے حکم شرعی معلوم کرو اور اس سے آگے اگر چاہو گے تو وہ مشورہ بھی دے سکتے ہیں ۔
مگر فرض منصبی ان کا صرف حکم شرعی ظاہر کردینا ہے باقی چندہ وغیرہ جمع کرنا یہ علماء کا کام نہیں یہ اہل مال کا کام ہے وہ خود دیکر دوسروں سے بھی لے سکتے ہیں سو طریقہ کا کام یہ ہے مگر ہم لوگوں میں کوئی ضابطہ نہیں اور مسلمانوں کو جو اس وقت پریشانی ہورہی ہے زیادہ تر اس کا سبب یہ بے ڈھنگا پن ہے۔
ان کے یہاں کسی کام کا نہ کوئی قاعدہ ہے نہ اصول جس طرف کو ایک جاتا ہے۔ سب اسی طرف کو چل دیتے ہیں ۔
اب دوسرے ضروری کاموں کو کون دیکھے کیونکہ سب تو ایک ہی کام میں لگ گئے اس لئے دوسرے کاموں میں گڑ بڑ ہوجاتی ہے اگر اصول اور قاعدہ سے کام ہوں اور ایک کو بڑا بنا کر اپنی قوت کو ایک جگہ جمع کرلیں پھر دیکھیں ان کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے۔
(ملفوظات حکیم الامت جلد نمبر ۵)
