آئمہ کا اجتہاد رحمت خدا وندی
اُمت کے اندر اختلاف میں اللہ تعالیٰ نے رحمت ر کھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا کسی نہ کسی انداز میں محفوظ رہ جائے۔ دوسرا یہ کہ عمل میں وسعت پیدا ہو، مزاج کے اختلاف کی وجہ سے بے دینی کا ذوق نہ پیدا ہو۔ تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کچھ ایسا مواد بھی رکھنا چاہتے تھے جس پر سوچ و بچار سے کام لیا جاسکے، استنباط و تفقہ کی مشق کرائی جائے۔ اجتہاد کے دروازے کھلے ہیں، اگر کوئی فقہاء کے استنباط کو بدعت قرار دے اس سے بڑا احمق کوئی نہیں۔ انہوں نے قرآن کے معانی کو محفوظ رکھنے کے گُر قیامت تک کیلئے اُمت کو بتا دیئے اور آج بھی ہر طرح کے مسائل کیلئے استنباط کررہے ہیں، یہ کہنا غلط ہے کہ علماء نے اجتہاد کا دروازہ بند کردیا ہے۔
ہر شخص اجتہاد نہیں کرسکتا لیکن اجتہاد کی شرائط کو پورا کرتے ہوئے کیا جاسکتا ہے۔ اس میں ایک بات قابل غور ہے کہ جن مسائل پر اجتہاد ہوچکا ہے، اُمت متفق ہے، ان کو منسوخ کرکے دوسرا اجتہاد کرے تو وہ اس کے منہ پر مارا جائے گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں آخری نبی اور تم آخری اُمت ہو۔ اس میں یہ بشارت ہے کہ ہم قیامت تک رہیں گے اور ہم نہیں مٹیں گے بلکہ ہمیں مٹانے والے پہلے مٹیں گے۔ اللہ تعالیٰ ’’شَرُّ النَّاس‘‘ کے غلبہ سے پہلے ہمیں ایمان کی حالت میں رکھے اور ایمان پر اُٹھالے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں امن والا ماحول دیا لیکن ہم نے اس کی قدر نہیں کی۔ ایک اللہ والے نے بتایا کہ ہم ان کے سات سالہ دور میں افغانستان گئے، بارڈر پر پہنچتے ہی ایسا محسوس ہوا جیسے ماں کی گود میں بچہ کو سکون ملتا ہے اور بتایا کہ مختلف علاقوں میں کچھ دن قیام کرنے کے بعد نہ ہمارے کان سے اور نہ آنکھ سے کوئی گناہ سرزد ہوا۔ دُعا یہ کریں کہ اللہ ہمیں اسلام کی بہار دکھائے اور اس بہار کے لانے میں ہمارا حصہ بھی ہو۔ پہلے ہم اپنے اندر خواہش پیدا کریں اس کو پورا کرنے کیلئے ترکیبیں اللہ تعالیٰ سُجھا دے گا۔(مجالس ناصریہ، ص:۶۶)
